حج اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:“بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله و أن محمدا عبده ورسوله، و إقام الصلاة, وإيتاء الزكاة، وحج بيت الله ،وصوم رمضان”(متفق عليه).
حج زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ ہر اس مرد و عورت پر فرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “أيها الناس، قد فرض الله عليكم الحج فحجوا“ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہر سال حج فرض ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی حتی کہ اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لو قلت نعم لوجبت، و لما استطعتم” (مسلم:1337).
فرضیت حج کی پانچ شرطیں ہیں:
1) اسلام-یعنی حج صرف مسلمان پر فرض ہے، کافر پر فرض نہیں ہے.اور اگر کافر حالت کفر میں حج کرلے تو وہ کافی نہیں ہوگا کیونکہ حج سے پہلے اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے.لہذا اسلام قبول کرنے کے بعد اگر وہ صاحب استطاعت ہے تو دوسرا حج فرض ہوگا.اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجب حضرت معاذرضی اللہ عنہ کویمن روانہ کیا تو فرمایا: “إنك تأتي قوما من أهل الكتاب، فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله، و أني رسول الله، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم و ليلة….. (متفق عليه).
2) عقل-یعنی حج عاقل اور باشعور مسلمان پر ہی فرض ہے،مجنون پر نہیں.کیونکہ مجنون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمرفوع القلم(غیر مکلف)قرار دیا ہے.
3) بلوغت-فرضیت حج کے لئے بلوغت شرط ہےکیونکہ نابالغ بچہ مکلف نہیں ہوتا، البتہ نابالغ بچہ حج کرسکتا ہے.جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنا ایک بچہ بلند کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول!کیا یہ حج کرسکتا ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“نعم و لك أجر” (مسلم:1336).
لیکن اس کا یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کریگا.بالغ ہونے کےبعد اگر وہ مستطیع ہو تو اسے فرض حج دوبارہ کرنا ہوگا.
4) آزادی-یعنی حج آزاد مسلمان پر ہی فرض ہوتا ہے، غلام پر نہیں.البتہ غلام حج کرسکتا ہے لیکن یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کریگا اور اسے آزاد ہونے کے بعد بحالت استطاعت فرض حج دوبارہ کرنا پڑے گا.
5) استطاعت-یعنی وہ حج کرنے کی قدرت رکھتا ہو، مالی طور پر حج کے اخراجات اٹھا سکتا ہو اور جسمانی طور پر سفر حج کے قابل ہو.راستہ پر امن ہو اور قدرت حاصل کرنے کے بعدحج کے ایام تک مکہ مکرمہ میں پہونچنا اس کے لئے ممکن ہو.فرمان الہی ہے: “ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا” (آل عمران:97) اورجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استطاعت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: “الزاد و الراحلة” (ابن ماجه-صحيح الترغيب و الترهيب للألباني:1131).
اگرکوئی شخص مالی طاقت تو رکھتا ہولیکن جسمانی طور پر سفر حج کے قابل نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانب سے کسی ایسے شخص کو حج کرائے جو پہلے اپنی طرف سے فریضہ حج ادا کرچکا ہو.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حجہ الوداع میں خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول!میرے باپ پر حج فرض ہوچکا ہےلیکن وہ بہت بوڑھا ہے اور سواری پر بیٹھنے کے قابل نہیں ہے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “نعم، حجي عنه” (متفق عليه).
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا جو کہ رہا تھا: “لبيك عن شبرمة” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:شبرمہ کون ہے؟اس نے کہا:میرا بھائی ہے(یا میرا رشتہ دار ہے)تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے خود حج کیا ہوا ہے؟اس نے کہا:نہیں.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “حج عن نفسك ثم حج عن شبرمة” (أبوداؤد:1811، ابن ماجة:2903-وصححه الألباني).
یاد رہے کہ عورت کے لئے ان شرئط کے علاوہ ایک اور شرط یہ ہے کہ سفر حج کے لئے اسے محرم یا خاوند کا ساتھ میسر ہو.اگر ایسا نہ ہوتو اس پر حج فرض نہیں.ارشاد نبوی ہے: “لا يحل لامرأة أن تسافر ثلاثا إلا و معها ذو محرم منها” (متفق عليه).
یاد رہے کہ جب کوئی شخص ان شرائط کے مطابق حج کی قدرت رکھتا ہو تو اسے پہلی فرصت میں حج کرلینا چاہیئے اور اگلے سال تک اسے موخر نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: “من أراد الحج فليتعجل، فإنه قد يمرض المريض، و تضل الضالة, و تعرض الحاجة” (أحمد و ابن ماجة-وصحيح الجامع الصغير للألباني:6004).
جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان شہروں میں کچھ لوگوں کو بھیج کر معلوم کروں کہ کس کے پاس مال موجود ہے اور اس نے حج نہیں کیا ہے تو اس پر میں جزیہ لگا دوں
کیونکہ وہ یقینا مسلمان نہیں ہے(صححہ ابن حجر فی الکبائر).
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے متعدد فضائل ذکر کئے ہیں، لیجئے آپ بھی ان فضائل کو سماعت فرمایئے.
1) حج مبرور کا بدلہ جنت ہے.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة” (البخاري:1773،مسلم:1349).
حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ کی گئی ہو.اور اس کی نشانی یہ ہے کہ حج کے بعد حاجی نیکی کے کام زیادہ کرنے لگ جائے اور دوبارہ گناہوں کی طرف نہ لوٹے.
2)حج گناہوں کو مٹا دیتا ہے.
*حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تو میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا: آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا لیکن میں نے اپنا ہاتھ آگے کھینچ لیا.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرو! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟
میں نے کہا: میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کون سی شرط؟
میں نےکہا: میری شرط یہ ہے کہ اللہ تعالی میرے گناہ معاف کردے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “أما علمت أن الإسلام يهدم ما كان قبله، و أن الهجرة تهدم ما كان قبلها، و أن الحج يهدم ما كان قبله” (مسلم:121).
*حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “أديموا الحج و العمرة فإنهما ينفيان الفقر و الذنوب كما تنفي الكير خبث الحديد” (الطبراني و الدارقطني و صححه الألباني في الصحيحة: 1185).
3) ایمان اور جہاد کے بعد سب سے افضل عمل حج ہے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: “إيمان بالله و رسوله” پوچھا گیا پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جهاد في سبيله” پوچھا گیا پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “حج مبرور” (البخاري:1519،مسلم:83).
4) حج سب سے افضل جہاد ہے.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! ہم یہ سمجھتی ہیں کہ جہاد کرنا سب سے افضل عمل ہے تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لكن أفضل الجهاد حج مبرور” (البخاري:1520).
5)عمر رسیدہ، کمزور اور عورت کا جہاد حج و عمرہ ہے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جهاد الكبير و الضعيف و المرأة: الحج و العمرة” (النسائي-وصححه الألباني).
6)حجاج کرام اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “الغازي في سبيل الله و الحاج و المعتمر وفد الله، دعاهم فأجابوه، و سألوه فأعطاهم” (ابن ماجة، ابن حبان-صحيح الترغيب و الترهيب:1108).
7)سفرحج کے دوران موت آجائے تو انسان سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “من خرج حاجا فمات، كتب له أجر الحج إلى يوم القيامة، و من خرج معتمرا فمات، كتب له أجر المعتمر إلى يوم القيامة…..” (رواه أبو يعلى-صحيح الترغيب و الترهيب:1114).
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک آدمی، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں وقوف کیا اسے اچانک اس کی اونٹنی نے نیچے گرادیا جس سے اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا.تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اغسلوه بماء و سدر، و كفنوه بثوبيه، و لا تخمروا رأسه, و لا تحنطوه، فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا” (البخاري:1849،1850، مسلم:1206).
8) مناسک حج کی فضیلت میں ایک عظیم حدیث.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم بیت اللہ کا قصد کرکے گھر سے روانہ ہوتے ہو تو تمہاری سواری کے ہر ہر قدم پر اللہ تعالی ایک ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور ایک ایک گناہ معاف کردیتا ہے.اور جب تم وقوف عرفہ کر رہے ہوتے ہو تو اللہ عز وجل آسمان دنیا پر آکر فرشتوں کے سامنے حجاج کرام پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے:دیکھو یہ میرے بندے ہیں جو دور وراز سے پراگندہ حالت میں اور غبار آلود ہوکر میرے پاس آئے ہیں.یہ میری رحمت کے امید وار ہیں اور میرے عذاب سے ڈرتے ہیں.(حالانکہ انھوں نے مجھے دیکھا نہیں ہے) اور اگر یہ مجھے دیکھ لیتے تو پھر ان کی حالت کیا ہوتی!پھر اگر تمہارے اوپر تہہ در تہہ ریت کے ذرات کے برابر، یا دنیا کے ایام کے برابر، یا بارش کے قطروں کے برابر گناہ ہوں تو اللہ تعالی ان تمام گناہوں کو تم سے دھو دیتا ہے.اور جب تم جمرات کو کنکریاں مارتے ہو تو اس کا اجر اللہ تعالی تمہارے لئے ذخیرہ کردیتا ہے.اور جب تم سر منڈواتے ہو تو ہر بال کے بدلے اللہ تعالی تمہارے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے.پھر جب تم طواف کرتے ہو تو اس طرح گناہوں سے پاک ہوجاتے ہو جیسا کہ تم اپنی ماں کے پیٹ سے گناہوں سے بالکل پاک پیداہوئے تھے.” (الطبرنی-وحسنہ الالبانی فی صحیح الجامع الصغیر:1360)
اسی حدیث کی ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں:
جب تم اپنے گھر سے بیت اللہ کا قصد کرکے نکلتے ہو تو تمہاری اونٹنی کے ایک ایک قدم پر اللہ تعالی تمہارے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور ایک گناہ معاف کردیتا ہے.اور طواف کے بعد تمہاری دو رکعات حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہوتی ہے. اور صفا اور مروہ کے درمیان تمہاری سعی ستر غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر ہوتی ہے.اور یوم عرفہ کی شام کو اللہ تعالی آسمان دنیا پر آکر تم پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے:دیکھو یہ میرے بندے ہیں جو دور دراز سے پراگندہ حالت میں اور غبار آلود ہوکر میرے پاس آئے ہیں،یہ میری رحمت کے امید وار ہیں.اگر تمہارے گناہ ریت کے ذرات کے برابر، یا بارش کے قطروں کے برابر، یا سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں تو میں نے ان تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے.اور”أَفِيضُوا عِبَادِي مُغْفُوراً لَكُمْ وَ لِمَنْ شَفَعتُمْ لَه” “سن لو میرے بندو! اب تم مزدلفہ کی طرف لوٹ جاو، میں نے تمہاری اور جن کے لئے تم نے دعا کی ہے سب کی مغفرت کردی ہے.” اور جب تم جمرات کو کنکریاں مارتے ہو تو ہر کنکری کے بدلے میں ایک کبیرہ گناہ مٹا دیا جاتا ہے. اور جب تم قربانی کرتے ہو تو اس کا اجر تمہارے رب کے یہاں تمہارے لئے ذخیرہ کردیا جاتا ہے.اور جب تم سر منڈواتے ہو تو ہر بال کے بدلے اللہ تعالی تمہارے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے.پھر جب تم طواف کرتے ہو تو اس طرح گناہوں سے پاک ہوجاتے ہو جیسا کہ تم اپنی ماں کے پیٹ سے گناہوں سے بالکل پاک پیدا ہوئے تھے.اور ایک فرشتہ آتا ہے اور تمہارے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے:جاو اب مستقبل کے لئے عمل کرو کیونکہ تمہارے پچھلے گناہ مٹادئے گئے ہیں.”(الطبرانی-صحیح الترغیب و الترہیب للالبانی:1112)
1) عازم حج پر لازم ہے کہ وہ حج و عمرہ کے ذریعے صرف اللہ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کی نیت کرے کیونکہ ہر عمل صالح کی قبولیت کے لئے اخلاص شرط ہے. فرمان الہی ہے: “و ما أمروا إلا ليعبدوا الله مخلصين له الدين حنفاء و يقيموا الصلاة و يؤتوا الزكوة و ذلك دين القيمة” (البينة:5).
2) حج کے اخراجات رزق حلال سے کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “يا أيها الناس، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا” پھر آپ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرکے پراگندہ اور غبار آلود حالت میں(حج کرنے جاتا ہے) اور آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کرتا ہے، اے میرے رب! اے میرے رب! حلانکہ اس کا کھانا، اس کا پینا اور اس کا لباس حرام کمائی سے تھا اور جسم کی پرورش حرام کمائی سے ہوئی تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے”(مسلم:1014)
اس حدیث میں ذرا غور فرمائیں کہ اس شخص نے قبولیت دعا کے کئی اسباب اختیار کئے.سفر، پراگندہ اور غبار آلود حالت اور اللہ کے سامنے ہاتھوں کا اٹھانا وغیرہ…لیکن اس کے باوجود اس کی دعا اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا کھانا ،پینا اور لباس وغیرہ حرام کمائی سے تھا.اس لئے تمام مسلمانوں پر عموما اور حجاج کرام پر خصوصا لازم ہے کہ وہ حرام کمائی سے بچیں اور سفر حج کے اخراجات حلال کمائی سے کریں.
3)تمام گناہوں سے سچی توبہ کرلے اور اگر اس پر لوگوں کا کوئی حق(قرضہ وغیرہ) ہو تو اسے ادا کردے.اپنے گھر والوں کواللہ تعالی سے ڈرتے رہنے کی تلقین کرے اور اگر کچھ حقوق وہ ادا نہ کرسکا ہو تو انہیں ان کے متعلق وصیت کردے.
4)قرآن و سنت کی روشنی میں حج وعمرہ کے احکامات کو سیکھ لے اور سنی سنائی باتوں پر اعتماد نہ کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجہ الوداع کے موقعہ پر ارشاد فرمایا تھا: “لتأخذوا مناسككم، فإني لا أدري لعلي لا أحج بعد حجتي هذه” (مسلم:1297).
لہذا جس طرح باقی تمام عبادات کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے مطابقت ضروری ہے، اسی طرح حج کےاحکام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہی ادا ہونے چاہیئے.
1) احرام کی نیت کرنے کے بعد زبان کی خصوصی طور پر حفاظت کریں اور فضول گفتگو سے پرہیز کریں، اپنے ساتھیوں کو ایذاء نہ دیں اور ان سے برادرانہ سلوک کریں. اور اپنے تمام فارغ اوقات اللہ تعالی کی اطاعت میں گذاریں. اللہ تعالی کا فرمان ہے: “الحج أشهر معلومات فمن فرض فيهن الحج فلا رفث و لا فسوق و لا في الحج و ما تفعلوا من خير يعلمه الله و تزودوا فإن خير الزاد التقوى و اتقون يا أولي الألباب”(البقرة:197) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: “من حج فلم يرفث و لم يفسق رجع كيوم ولدته أمه” (متفق عليه).
2) حجاج کے رش میں خصوصا حالت طواف اور سعی میں اور کنکریاں مارتے ہوئے کوشش کریں کہ کسی کو آپ کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ پہونچے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ سب سے اچھا مومن کون ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”من سلم المسلمون من لسانه و يده”(متفق عليه)
اگر کسی کی وجہ سے آپ کو تکلیف پہونچے تو اسے درگزر کردیں اور جھگڑا نہ کریں.اللہ تعالی کا فرمان ہے: “والذين يجتنبون كبئر الإثم و الفواحش و إذا ما غضبوا هم يغفرون” (الشورى:27) نیز فرمایا: “وجزاء سيئة سيئة مثلها فمن عفا و أصلح فأجره على الله إنه لا يحب الظالمين” (الشورى:40).
3) با جماعت نماز پڑھنے کی پابندی کریں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی سستی نہ برتیں.
4) خواتین غیر محرم مردوں کے سامنے بے پردہ نہ ہوں اور ان کے سامنے دوپٹے یا چادر وغیرہ سے پردہ کریں. اللہ تعالی کا فرمان ہے: “يا أيها النبي قل لأزواجك و بناتك و نساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن ذلك أدنى أن يعرفن فلا يؤذين” (الأحزاب:59).
1) احرام حج و عمرہ کا پہلا رکن ہے. اور اس سے مراد ہے احرام کا لباس پہن کر تلبیہ کہتے ہوئے مناسک حج و عمرہ کو شروع کرنے کی نیت کرلینا. اور ایسا کرنے سے اس پر چند امور کی پابندی کرنا لازمی ہوجاتا ہے.
عمرے کا احرام میقات سے شروع ہوتا ہے.البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ لباس احرام پہلے پہن لیا جائے اور نیت میقات سے کی جائے.میقات سے احرام باندھے بغیر گزرنا حرام ہے.اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اسے میقات کو واپس آنا یا مکہ جا کر دم دینا پڑے گا.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ(ابیار علی) اہل شام کے لئے الجحفہ، اہل نجد کے لئے قرن المنازل اور اہل یمن کے لئے یلملم کو میقات مقرر فرمایا ہے.یہ مواقیت ان ملکوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی ہیں جو حج و عمرہ کی نیت سے ان مقامات سے گزریں. اور جو لوگ ان مواقیت کے اندر (مکہ مکرمہ کی جانب) مقیم ہوں وہ اپنے گھروں سے ہی احرام کی نیت کریں حتی کہ اہل مکہ مکہ ہی سے احرام کی نیت کریں”(متفق علیہ)
2)احرام باندھتے وقت غسل کرنا، صفائی کے امور کا خیال کرنا اور بدن پر خوشبو لگانا سنت ہے.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ: “كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم لإحرامه حين يحرم، و لحله قبل أن يطوف بالبيت” (متفق عليه).
3)مرد دو سفید اور صاف ستھری چادروں میں احرام باندھیں جبکہ خواتین اپنے عام لباس میں ہی احرام کی نیت کریں. اگر میقات پر عورت مخصوص ایام میں ہو تو وہ غسل کرکے احرام کی نیت کرلے.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا(حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ) نے ذوالحلیفہ میں بیداء کے مقام پر(محمد بن ابی بکر) کو جنم دیا، جس کے بعد انہیں نفاس آگیا.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی اہلیہ کو حکم دیں کہ وہ غسل کرلیں اور احرام کی نیت کرلیں”(مسلم:1209)
4) احرام کی نیت ان الفاظ سے کریں:”لبيك اللهم عمرة”اگر راستے میں کوئی رکاوٹ آنے کا خطرہ ہو تو یہ الفاظ بھی پڑھنے چاہیئے:”اللهم إن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني”پھر تلبیہ پڑھنا شروع کردیں اور طواف شروع کرنے تک اسے پڑھتے رہیں.
تلبیہ یہ ہے: “لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد و النعمة لك و الملك، لا شريك لك” (متفق عليه).
5)مردوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: “أتاني جبريل عليه السلام فأمرني أن آمر أصحابي و من معي أن يرفعوا أصواتهم بالإهلال” (الترمذي:829،أبوداؤد:1814 و صححه الألباني)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ پڑھنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: “ما من مسلم يلبي إلا لبى من عن يمينه أو عن شماله من حجر أو شجر أو مدر” (الترمذي: 828-وصححه الالباني).
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ما أهل مهل قط إلا بشر، و لا كبر مكبر قط إلا بشر- قيل يارسول الله! بالجنة؟ قال: نعم” (الطبراني في الاوسط-صحيح الترغيب و الترهيب للألباني:1137).
6) بعض غلطیاں:بغیر احرم باندھے میقات کو عبور کرجانا-احرام باندھتے ہی دایاں کندھا ننگا کر لینا حالانکہ ایسا صرف طواف قدوم میں کرنا چاہیئے-خاص ڈھب سے بنے ہوئے جوتے کی پابندی کرنا(حالانکہ ٹخنوں کو ننگا رکھتے ہوئے ہر قسم کا جوتا پہنا جا سکتا ہے)-احرام باندھ کر کثرت سے ذکر و استغفار اور تلبیہ کے بجائے لہو لعب میں مشغول رہنا-با جماعت نماز ادا کرنے میں سستی کرنا-خواتین کا بغیر محرم یا بغیر خاوند کے سفر کرنا-غیر محرم مردوں کے سامنے عورتوں کا پردہ نہ کرنا- احرام باندھ لینے کے بعد کئی لوگوں کا فوٹو کھنچوانا.
احرام کی نیت کرنے کے بعد کچھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو یہ ہیں: جسم کے کسی حصے سے بال اکھیڑنا یا کاٹنا، ناخن کاٹنا،خوشبو استعمال کرنا،بیوی سے صحبت یا بوس وکنار کرنا، دستانے پہننا اور شکار کرنا…. یہ سب امور مرد و عورت دونوں پر حرام ہوجاتے ہیں. اور مرد پر سلا ہوا کپڑا پہننا اور سر کو ڈھانپنا حرام ہوجاتا ہے.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! احرام والا شخص کونسے کپڑے پہن سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” لا تلبس القمص و لا العمائم، و لا البرانس و لا الخفاف، إلا أحد لا يجد نعلين فليلبس خفين، و ليقطعهما أسفل من الكعبين، و لا تلبسوا من الثياب شيئا مسه زعفران أو ورس” (متفق عليه).
جبکہ عورت پر نقاب باندھنا حرام ہے.جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کی ایک اور روایت کے اخیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” و لا تنتقب المرأة المحرمة، و لا تلبس القفازين” (البخاري:1838).
البتہ وہ غیر محرم مردوں کے سامنے چہرے کا پردہ کرنے کی پابند ہوگی خواہ کپڑا اس کے چہرے کو لگ جائے.
حضرت فاطمہ بنت المنذر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: “كنا نخمر وجوهنا و نحن محرمات و نحن مع أسماء بنت أبي بكر الصديق” اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: “كنا نغطي وجوهنا من الرجال و كنا نمتشط قبل ذلك في الإحرام” ( رواهما الحاكم و صححهما الألباني في إرواء الغليل: ج:4 ص:212).
جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ:
“كان الركبان يمرون بنا و نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم محرمات، فإذا حاذوا بنا سدلت إحدانا جلبابها من رأسها على وجهها، فإذا جاوزونا كشفناه” ( أبو داؤد:1833 ، ابن ماجة:2935-ضعفه الألباني و لكن له شاهد من حديث أسماء و فاطمة المذكورين)
8)حالت احرام میں غسل کرنا، سر میں خارش کرنا، چھتری وغیرہ کے ذریعہ سایہ کرنا اور بلٹ باندھنا جائز ہے.
سایہ کرنے کے بارے میں حضرت ام حصین رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجہ الوداع کیا اور انھوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان میں سے ایک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کپڑا بلند کیا ہوا تھا تاکہ آپ دھوپ سے بچ سکیں.(مسلم:1298)
1) مسجد حرام پہونچ کر تلبیہ بند کردیں، پھر حجر اسود کے سامنے آئیں اور اپنا دایاں کندھا ننگا کرلیں. اسے اضطباع کہتے ہیں(ابوداود:1883-و صححہ الالبانی)
اگر با آسانی حجراسود کو بوسہ دے سکتے ہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ ہاتھ لگا کر اسے چوم لیں. اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو دائیں ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرکے زبان سے“بسم الله ، الله أكبر” کہیں اور طواف شروع کردیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: “يا عمر، إنك رجل قوي، لا تزاحم على الحجر فتؤذي الضعيف، إن وجدت خلوة فاستلمه و إلا فاستقبله، فهلل و كبر” (مسند أحمد:1/321 برقم:190).
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
“نزل الحجر الأسود من الجنة و هو أشد بياضا من اللبن، فسودته خطايا بني آدم” (الترمذي:877-و صححه الألباني).
جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا:
“و الله ليبعثنه الله يوم القيامة له عينان يبصر بهما، و لسان ينطق به، يشهد على من استلمه بحق” (ترمذي و ابن ماجة-صحيح الترغيب و الترهيب:1144).
نیز یہ بات ہر حاجی کو ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ حجر اسود نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہے . جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا. پھر فرمایا: “إني أعلم أنك حجر لا تضر و لا تنفع، و لو لا أني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك” (متفق عليه).
2) طواف کے پہلے تین چکروں میں کندھے ہلاتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ تیز تیز چلیں. اسے رمل کہتے ہیں. ہاں اگر رش ہو تو صرف کندھے ہلانا ہی کافی ہے.یاد رہے کہ یہ حکم عورتوں اور ان کے ساتھ جانے والے مردوں کے لئے نہیں ہے.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج میں یا عمرہ میں طواف کرتے تو سب سے پہلے تین چکر تیز تیز قدموں کے ساتھ لگاتے، پھر چار چکر عام رفتار میں مکمل کرتے. اس کے بعد دو رکعات ادا فرماتے اور پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے.(متفق علیہ).
3)دوران طواف ذکر، دعا اور تلاوت قرآن میں مشغول رہیں، ہر چکر کا کوئی خاص دعا نہیں ہے. البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان “ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا عذاب النار” کا پڑھنا مسنون ہے (أبوداؤد:1892-و حسنه الألباني).
ذکر اور دعا میں آواز بلند کرنا درست نہیں. اللہ تعالی کا فرمان ہے: “واذكر ربك في نفسك تضرعا و خيفة و دون الجهر من القول بالغدو و الآصال و لاتكن من الغافلين” (الأعراف:205).
4) “بسم الله ، الله أكبر” کہہ کر رکن یمانی کا استلام کرنا بھی مسنون ہے. لہذا اگر با آسانی اسے ہاتھ لگا سکیں تو ٹھیک ہے ورنہ بغیر اشارہ کئے ہوئے اور بوسہ دیئے ہوئے وہاں سے گزر جائیں.
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “إن الركن و المقام ياقوتتان من ياقوت الجنة، طمس الله نورهما، و لو لم يطمس نورهما لأضاءتا ما بين المشرق و المغرب” (الترمذي:878-و صححه الألباني).
5) سات چکر مکمل کرکے مقام ابراہیم کے پیچھے اگر جگہ مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ مسجد حرام کے کسی حصے میں دو رکعات ادا کریں. پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد” الکافرون” اور دوسری میں”الاخلاص” پڑھیں.(مسلم:1218)
پھر زمزم کا پانی پیییں اور سر پر بہائیں،اس کے بعد اگر ہوسکے تو حجر اسود کا استلام کریں کیونکہ یہ رسول اللہ کی سنت ہے.ورنہ سیدھے صفا کی طرف چلے جائیں.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے تو مسجد حرام میں داخل ہوئے، پھر آپ نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر اپنی دائیں سمت چل پڑے، پہلے تین چکروں میں آپ نے رمل کیا اور باقی چار چکر آپ نے عام رفتار میں پوری کیا، پھر آپ مقام ابراہیم پر آئے اور یہ آیت پڑھی:”و اتخذوا من مقام إبراهيم مصلى “مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھ کر دو رکعت نماز ادا فرمائی،پھر دوبارہ حجر اسود پر آئے اور استلام کیا،پھر صفا کی طرف چلے گئے. (مسلم:1218)
طواف میں بعض غلطیاں:حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے مزاحمت کرنا اور مسلمانوں کو ایذا دینا.دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے حجر اسود کی طرف اشارہ کرنا.حطیم کے درمیان سے گزرتے ہوئے طواف کرنا.رکن یمانی کو بوسہ دینا اور استلام نہ کر سکنے کی صورت میں اشارہ کرنا.ہر چکر کے لئے ایک دعا خاص کرنا.کعبہ کی دیواروں پر بنیت تبرک ہاتھ پھیرنا.طواف قدوم کے بعد بھی دایاں کندھا ننگا رکھنا.دوران طواف دعائیں پڑھتے ہوئے آواز بلند کرنا.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “خير ماء على وجه الأرض ماء زمزم، فيه طعام الطعم و شفاء السقم” (رواه الطبراني و ابن حبان-وصحيح الترغيب و الترهيب:1161).
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ماء زمزم لما شرب له” (رواه الدارقطني و الحاكم-صحيح الترغيب و الترهيب:1164).
2) طواف،دو رکعت اور استلام حجر اسود کےبعد اگر ملتزم پر جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے.جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے پہلے طواف کیا،پھر دو رکعت نماز ادا کی، پھر استلام کیا،پھر حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے ہوکراپنا سینہ،اپنے ہاتھ اور اپنے رخسار بیت اللہ سے چمٹائے پھرکہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا.(الترمذی:2962)
3) سعی: صفا کے قریب جاکر “إن الصفا و المروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما و من تطوع خيرا فإن الله شاكر عليه” پڑھیں،پھرصفا پہ چڑھ جائیں اور خانہ کی طرف منہ کرکے یہ دعاپڑیں: “لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك و له الحمد، يحي و يميت، و هو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله وحده لا شريك له، أنجز وعده و نصر عبده و هزم الأحزاب وحده” پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگیں، تین مرتبہ اسی طرح کرکے مروہ کی طرف روانہ ہوجائیں.راستے میں دو سبز نشانوں کے درمیان دوڑیں.عورتیں اور ان کے ساتھ جانے والے مرد نہیں دوڑیں گے.پھر عام رفتار چلتے ہوئے مروہ پر پہونچیں،یہاں پہونچ کر ایک چکر پورہ ہوجائے گا.پھر یہاں بھی وہی کریں جو آپ نے صفا پر کیا تھا.اسی طرح سات چکر پورے کریں،آخری چکر مروہ پر پورہ ہوگا.دوران سعی ذکر، دعا اور تلاوت قرآن میں مشغول رہیں.
بعض غلطیاں: صفا اور مروہ پر قبلہ رخ ہوکر دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرنا.اقامت نماز ہوجانے کے بعد بھی سعی جاری رکھنا.سعی کے سات چکروں کے بجائے چودہ چکر لگانا.
4) سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا:سعی مکمل کرکے سر منڈوا لیں یا پورے سر کے بال چھوٹے کروالیں.تاہم منڈوانا افضل ہے.عورت اپنی اپنی ہر چوٹی سے انگلی کے پور کے برابر بال کٹوائے.مردوں کا سر کے کچھ حصے سے بال کٹوا کر حلال ہونا خلاف سنت ہے.
اس طرح آپ کا عمرہ مکمل ہوجائے گا اور احرام کی وجہ سے جو پابندیاں لگیں تھیں وہ ختم ہوجائیں گی.اب آپ احرام کھول سکتے ہیں.اللہ رب العزت ہمیں اور حجاج کرام کو عمرہ مقبولہ نصیب فرمائے.آمین.
8/ذوالحج(یوم الترویہ)
مکہ مکرمہ میں جہاں آپ رہائش پذیر ہیں وہیں سے حج کا احرام باندھ لیں.احرام حج کا طریقہ بھی وہی ہے جو احرام عمرہ کا ہے.لہذا صفائی اور غسل کرکے اور بدن پر خوشبو لگا کر احرام کا لباس پہن لیں.پھر “لبيك اللهم حجا” کہتے ہوئے حج کی نیت کرلیں اور تلبیہ شروع کردیں اور دس ذوالحج کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پڑھتے رہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمی کرنے تک تلبیہ جاری رکھا.(متفق علیہ)
احرام باندھ کر ظہر سے پہلے منی کی طرف روانہ ہوجائیں.منی میں ظہر ، عصر،مغرب،عشاءاور نو ذوالحج کی فجر کی نمازیں قصر کرکے اپنے اپنے وقت پر پڑھیں اور رات کو وہیں قیام کریں.یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے.(متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی میں ہی ظہر ،عصر ،مغرب،عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھائیں اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کو روانہ ہوئے.(الترمذی:879-و صححہ الالبانی)
یوم عرفہ انتہائی عظیم دن ہے،اس دن عرفات کا وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے.اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوف عرفہ کو حج قرار دیا ہے.(ترمذی:889- و صححہ الالبانی)
اس دن کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة، و إنه ليدنو ثم يباهي بهم الملائكة فيقول: ما أراد هؤلاء؟”(مسلم:1348).
جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں وقوف فرمایا اور جب سورج غروب ہونے والا تھا تو آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:اے بلال!ذرا لوگوں کو خاموش کرکے میری طرف متوجہ کرو.چنانچہ انھوں نے لوگوں کو خاموش کرایا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “معاشر الناس، أتاني جبريل آنفا، فأقرأني من ربي السلام، و قال: إن الله عز و جل غفر لأهل عرفات، و أهل المشعر، و ضمن عنهم التبعات” تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ ہمارے لئے خاص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “هذا لكم و لمن أتى من بعدكم إلى يوم القيامة” (صحيح الترغيب و الترهيب للألباني:1151).
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کو فجر کی نماز منی میں ادا فرمائی،اور پھر(طلوع شمس کے بعد)آپ عرفات کو روانہ ہوگئے.عرفات میں پہونچ کر آپ نمرہ میں اترے.اور وہ مقام ہے جہاں عرفات میں امام اترتا ہےیہاں تک کہ جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ نے اول وقت میں ظہر اور عصر کو جمع کیا.پھر آپ نے لوگوں کو خطاب کیا: اس کے بعد آپ نے عرفات میں وقوف کیا.(ابوداود:1913-وحسنہ الالبانی)
1) نو ذوالحج کو طلوع شمس کے بعد تکبیر اور تلبیہ کہتے ہوئے عرفات کی طرف روانہ ہوجائیں.عرفات میں پہونچ کر اس بات کا یقین کرلیں کہ آپ حدود عرفہ کے اندر ہیں؟پھر (زوال شمس کے بعد)اگر ہوسکے تو امام کا خطبہ حج سنیں اور اس کے ساتھ ظہر اور عصر کی نماز جمع اور قصر کرکے پڑھیں.اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو اپنے خیمے میں ہی دونوں نمازیں جمع و قصر کرتے ہوئے ادا کرلیں.
2) پھرغروب شمس تک ذکر، دعا،تلبیہ اور تلاوت قرآن میں مشغول رہیں.اور اللہ تعالی کے سامنےعاجزی و انکساری ظاہر کریں، اپنی گناہوں سے سچی توبہ کریں اور ہاتھ اٹھا کردنیا و آخرت میں خیر و بھلائی کی دعا کریں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”خير الدعاء دعاء يوم عرفة، و خير ما قلت أنا و النبيون من قبلي: “لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك و له الحمد، و هو على كل شيء قدير” (الترمذي:3585و حسبه الألباني- الصحيحة:1503)
3) وقوف عرفہ کا وقت زوال شمس سے لیکر دس ذوالحج کی رات کو طلوع فجر تک رہتا ہے .اس دوران حاجی ایک گھڑی کے لئے بھی عرفات میں چلا جائے تو حج کا یہ رکن پورا ہوجائے گا.
4) غروب شمس کے بعد عرفات سے انتہائی سکون کے ساتھ مزدلفہ کو روانہ ہوجائیں.حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ یوم عرفہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفہ سے واپس لوٹے.نبی کریم نے اپنے پیچھے سے سواریوں کو مارنے اور شدید ڈانٹنے کی آوازیں سنیں تو آپ نے اپنے کوڑے سے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “أيها الناس، عليكم بالسكينة فإن البر ليس بالإيضاع” (البخاري:1671)
5)یوم عرفہ کو مغرب کی نماز عرفات میں نہیں بلکہ مزدلفہ میں پہنچ کر عشاء کے ساتھ جمع کرکے پڑھیں.
6)مزدلفہ میں سب سے پہلےمغرب و عشا ء کی نمازیں جمع و قصر کرکے با جماعت ادا کریں،پھر اپنی ضرورتیں پوری کرکے سو جائیں.جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں جمع فرمائیں.ہر نماز کے لئے الگ الگ اقامت کہی گئی اور ان دونوں کے درمیان اور اسی طرح ان کے بعد آپ نے کوئی نفل نماز نہیں پڑھی.(البخاری:1673)
7)عورتوں کے لئے اور ان کے ساتھ جانے والے مردوں اور بچوں کے لئے اور اسی طرح کمزوروں کے لئے جائز ہے کی وہ آدھی رات کے بعدمزدلفہ سے منی چلے جائیں.حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے گھر والوں میں سے کمزور لوگ مزدلفہ المشعر الحرام کے پاس رات کے وقت وقوف کرتے تھے اور وہ جتنا چاہتے اللہ تعالی کا ذکر کرتے.پھر حضرت ابن عمر امام کے وقوف اور اس کے منی کو لوٹنے سے پہلے ہی ان کمزور لوگوں کومزدلفہ سے جلدی روانہ کردیتے.چنانچہ ان میں سے کوئی نماز فجر کے وقت منی میں پہنچتا اور کوئی اس کے بعد.اور وہ جیسے ہی منی میں پہنچتے جمرہ عقبہ کو رمی کرتے.اور حضرت عبد اللہ بن عمر کہا کرتے تھےکہ ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی تھی.(متفق علیہ)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہم نے مزدلفہ میں پڑاو ڈالا تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ لوگوں کے ازدحام سے پہلے وہاں سے منی کو چلی جائیں؟ وہ بھاری جسم کی مالک تھیں اور بہت آہستہ آہستہ چلتی تھیں.چنانچہ رسول اللہ نے انہیں اجازت دیدی، اس لئے وہ لوگوں کے رش سے پہلے ہی روانہ ہوگئیں.اور ہم صبح تک آپ کے ساتھ ہی ٹھہرے رہے، پھر آپ کے ساتھ ہی منی کو واپس لوٹے. اور اگر میں نے بھی رسول اللہ سے اجازت طلب کرلی ہوتی جیسا کہ سودہ نے طلب کی تھی تو یہ میرے لئے اس بات سے بہتر ہوتا جس پر میں خوش ہو رہی تھی(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے پر)(متفق علیہ)
بعض غلطیاں: (1)حدود عرفہ سے باہر وقوف کرنا.(2)یہ عقیدہ رکھنا کہ جبل رحمت پر چڑھے بغیر وقوف عرفہ مکمل نہیں ہوتا حالانکہ جبل رحمت پر چڑھنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کار ثواب ہے.(3)غروب شمس سے پہلے عرفات سے روانہ ہوجانا.(4)مزدلفہ میں پہونچ کر سب سے پہلے مغرب و عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کے بجائے کنکریاں چننے میں لگ جانا.(5)مزدلفہ کی رات میں نوافل پڑھنا.
ذوالحج(یوم عید)
1)فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کریں،پھر صبح کی روشنی پھیلنے تک قبلہ رخ ہوکرذکر، دعا اور تلاوت قرآن میں مشغول رہیں.
2) بڑے جمرۃ کو کنکریاں مارنے کے لئے مزدلفہ سے چنے کے برابر کنکریاں اٹھا سکتے ہیں.البتہ یہ لازم نہیں کہ مزدلفہ سے ہی اٹھائی جائیں.جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مزدلفہ سے منی واپس لوٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب محسر میں پہنچے جو کہ منی میں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ]”عليكم بحصى الحذف الذي يرمى به الجمرة” (مسلم:1282)
(3)پھر طلوع شمس سے پہلے منی سے روانہ ہوجائیں،راستے میں وادی محسر کو عبور کرتے ہوئے تیز تیز چلیں.
4) منی میں بڑے جمرۃکے پاس پہنچ کر تلبیہ بند کردیں اور بڑے جمرۃ کو جو کہ مکہ مکرمہ کی طرف ہے سات کنکریاں ایک ایک کرکے ماریں،ہر کنکری کے ساتھ “اللہ اکبر” کہیں.کمزور یا بیمار مرد، بچے اور اسی طرح کمزور یا عمر رسیدہ خواتین کنکریاں مارنے کے لئے کسی دوسرے شخص کو وکیل بنا سکتے ہیں.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو چاشت کے وقت کنکریاں مارتے اور اس کے بعد دیگر ایام میں زوال شمس کے بعد رمی کرتے.(مسلم:1299)
5) پھر قربانی کا جانورذبح کریں جو بے عیب ہو اور مطلوبہ عمر کے مطابق ہو.قربانی کے جانور کی عمر کا لحاظ نہ کرنا اور عیب دار جانور قربان کردینا ناجائز ہے.یاد رہے کہ آپ قربانی11یا12یا13ذوالحج کو بھی کرسکتے ہیں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کسی با اعتماد شرکہ میں پیسہ جمع کروا دیں جو آپ کی طرف سے قربانی کرنے کی پابند ہوگی.اور اگر آپ مالی مجبوری کی بنا پر قربانی نہ کرسکیں تو آپ کو دس روزے رکھنا ہونگے.تین ایام حج میں اور سات وطن لوٹ کر.
6)پھر سر کے بال منڈوا دیں یا پورے سرکے بال چھوٹے کروادیں،البتہ بال منڈوانا افضل ہے.کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والوں کے لئے مغفرت(ایک روایت میں رحمت) کی دعا تین مرتبہ فرمائی جبکہ بال چھوٹے کروانے والوں کے لئے آپ نے یہ دعا ایک بار ہی فرمائی.خواتین اپنی ہر چوٹی سے انگلی کے ایک پور کے برابر بال کٹوائیں.
اس کے ساتھ ہی آپ کو تحلل اصغرحاصل ہوجائے گا.اب آپ احرام اتار کر صفائی اور غسل وغیرہ کرکے اپنا عام لباس پہن لیں اور طواف افاضہ کے لئے خانہ کعبہ چلے جائیں.
7) طواف افاضہ حج کا رکن ہے.اگر کسی وجہ سے آپ دس ذوالحج کو طواف افاضہ نہ کرسکیں تو اسے بعد میں بھی کرسکتے ہیں.اگر خواتین مخصوص ایام میں ہوں تو وہ طہارت کے بعد طواف کریں.
8) طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعات ادا کریں،پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کریں اور منی کو واپس چلے جائیں.
9) دس ذوالحج کےچار کام(کنکریاں مارنا،قربانی کرنا،حلق یا تقصیر،طواف و سعی)ترتیب یہی ہے ان میں تقدیم و تاخیر بھی جائز ہے.حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منی میں کھڑے ہوئے تھے تو لوگوں نے آپ سے سوالات کرنا شروع کردیئے.چنانچہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا:اے اللہ کے رسول!مجھے پتہ نہیں چلا اور میں نےحلق قربانی کرنے سے پہلے کرلیاہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اذبح و لا حرج” پھر ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مجھے بھی پتہ نہیں چلا اور میں نے قربانی رمی کرنے سے پہلے کرلی ہے تو آپ نے فرمایا:”ارم و لا حرج”اس کے بعد رسول اللہ سے ان امور کی تقدیم و تاخیر کے بارے میں جو سوال کیا گیا آپ نے فرمایا: “افعل و لا حرج” (متفق عليه)
1)11اور12ذوالحج کی راتیں منی میں گزارنا واجب ہے.12کو کنکریاں مارنے کے بعدمنی سے جا سکتے ہیں تاہم13کی رات وہیں گزارنا اور13 کے دن کنکریاں مار کے وہاں سے جانا افضل ہے.ان ایام میں تینوں جمرات کو کنکریاں مارنی ہیں جس کا وقت زوال شمس سے لیکر آدھی رات تک ہوتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لما أتى إبراهيم خليل الله المناسك عرض له الشيطان عند الجمرة العقبة، فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثانية، فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثالثة، فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض” پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:تم شیطان کو رجم کرتے ہو اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کرتے ہو.(صحیح الترغیب و الترہیب:1156)
2)سب سے پہلےچھوٹے جمرۃ کو سات کنکریاں ایک ایک کرکے ماریں،ہر کنکری کے ساتھ “اللہ اکبر” کہیں، پھر اسی طرح درمیانے جمرۃ کو کنکریں ماریں.اور اگر آپ کو کسی دوسرے کی طرف سے بھی کنکریاں مارنی ہوں تو پہلے اپنی کنکریاں مار کر پھر اس کی کنکریاں ماریں.چھوٹے اور درمیانے جمرۃ کو کنکریاں مارنے کے بعد قبلہ رخ ہو کر اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مسنون ہے.بڑے جمرۃکو بھی اسی طرح کنکریاں ماریں اس کے بعد دعا نہ کریں.
3)تینوں جمرات کو کنکریاں مارنے کے لئے کنکریاں منی میں کسی بھی جگہ سے اٹھا سکتے ہیں.کنکریاں جمرات کا نشانہ لیکر اور حسب استطاعت قریب جاکر ماریں.جمرات کو شیطان تصور کرکے انہیں گالیاں دینا یا جوتے رسید کرنا جہالت ہے.
بعض غلطیاں: (1)کنکریاں دھونا (2)ساتوں کنکریاں ایک ساتھ مار دینا (3)کنکریاں مارنے کے مشروع وقت کا لحاظ نہ کرنا (4)ترتیب کا لحاظ نہ کرنا (5)بڑے سائز کے کنکر یا پتھر مارنا(6)ایام تشریق کی راتیں منی میں نہ گزارنا.
مکہ مکرمہ سے روانگی سے پہلے طواف وداع کرنا واجب ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “لا ينفرن أحد حتى يكون آخر عهده بالبيت” (مسلم:1327).
ہاں اگر خواتین مخصوص ایام میں ہوں تو ان پر طواف وداع واجب نہیں ہے.حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ مناسک حج میں ان کا سب سے آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو،ہاں البتہ حائضہ عورت کو اس کی اجازت دیدی گئی ہے.(متفق علیہ).
1) مسجد نبوی میں پہنچ کر تحیۃ المسجد پڑھیں.اور اگر ہو سکے تو روضۃ من ریاض الجنۃ میں جاکر پڑھیں کیونکہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے اسے جنت کا باغیچہ قرار دیا ہے.ارشاد ہے: “ما بين بيتي و منبري روضة من رياض الجنة” (متفق عليه).
2) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک کے سامنے آئیں، درود و سلام پڑھيں اور بہتر یہ ہے کہ درود ابراہیمی جسے نماز میں پڑھا جاتا ہے وہی پڑھیں.پھر آپ کے دونوں ساتھیوں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بھی سلام کہیں.
3) اگر دعا کرنا چاہیں تو مسجد نبوی میں جہاں چاہیں قبلہ رخ ہوکر کریں.
4) روضہ مبارکہ پر بنیت تبرک ہاتھ پھیرنا یا اس کا طواف کرنا قطعا درست نہیں.
5) مردوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ بقیع الغرقد میں مدفون حضرات اور اسی طرح شہداء احد رضی اللہ عنہم کی قبروں پر جاکر انہیں سلام کہیں اور ان کے لئے دعا کریں.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ دعا سکھلائی ہے: “السلام على أهل الديار من المؤمنين و المسلمين, و يرحم الله المستقدمين منا و منكم و المستأخرين، و إنا إن شاء الله بكم للاحقون، نسأل الله لنا ولكم العافية” (مسلم:974).
6) مسجد نبوی کے علاوہ مدینہ طیبہ کی مساجد میں سے صرف مسجد قباء میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء میں جایا کرتے تھے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے. اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: “من تطهر في بيته ثم أتى مسجد قباء فصلى فيه صلاة كان له كأجر عمرة” (الترمذي-و صححه الألباني).
باقی مساجد میں نماز پڑھنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے اس لئے ثواب کی نیت سے ان کا قصد کرنا درست نہیں ہے.
بعض غلطیاں:
1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر کی زیارت کی نیت کرکے مدینہ کا سفر کرنا.
2) حجاج کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجنا.
3) ہر نماز کے بعد روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرکے انتہائی ادب سے کھڑے ہوجانا.
4) دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانا.
5)مدینہ طیبہ میں چالیس نمازوں کی پابندی کرنا.
اختتام پر ہم سب دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو حج مبرور نصیب فرمائے. آمین.
و صلى الله على نبينا محمد و على آله و صحبه أجمعين.
اعداد و تقدیم: عبد الرب محمد اسلام المدنی