اللہ تعالی نے چونکہ ہر انسان کواپنی عبادت کے لئے ہی پیداکیا ہے اس لئے اسے چاہیئے کہ وہ ہر لمحہ اس کی منشاء کے مطابق گزارے اور اس کی عبادت کے ذریعے اس کے تقرب کے لئے کوشاں رہے.تاہم اللہ تعالی نے بعض حسین مواقع ایسے بھی عطا کئے ہیں جن میں انسانوں کو اس کی عبادت کے لئے کمر بستہ ہوجانا چاہیئے اور مختلف و متنوع اعمال صالحہ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیئے.
ان مبارک مواقع میں سے ایک موقعہ عشرہ ذوالحجہ کا ہے.یہ وہ ایام ہیں جن کے افضل الایام ہونے کی شہادت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ان میں نیک عمل کی بڑی تاکید فرمائی ہے.بلکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک مقام پر ان ایام کی قسم بھی کھائی ہے.فرمایا: “و الفجر و ليال عشر” (الفجر:1-2) جمہور مفسرین کے نزدیک دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں.علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں اسی رائے کو صحیح کہا ہے.
1) دنیا کے تمام ایام میں یہ افضل ہیں.حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “أفضل الأيام أيام العشر يعني عشرة ذي الحجة، قيل: و لا مثلهن في سبيل الله؟ قال: و لا مثلهن في سبيل الله إلا رجل عفر وجهه بالتراب” (صحيح الترغيب و الترهيب:1150)
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “ما من أيام العمل الصالح فيها أحب إلى الله من هذه الأيام العشر، قالوا: يا رسول الله! و لا الجهاد في سبيل الله؟ قال: و لا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه و ماله، ثم لم يرجع من ذلك بشيء” (رواه أحمد-و اللفظ له-البخاري بمعناه:969) ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یوں ہے: “ما من أيام أزكى عند الله و لا أعظم أجرا من خير يعمله في عشر الأضحى” (صحيح الترغيب:1148).
2) انہی ایام میں یوم عرفہ بھی ہے.جی ہاں، یوم عرفہ جو حج کا اصل دن ہے اور اسی میں حج کاسب سے بڑا رکن ادا کیا جاتا ہے.ایسا عظیم دن جس میں اللہ تعالی اہل عرفات کے لئے عام مغفرت کا اعلان کرتا ہے.اس بنا پر اگرایام عشرہ ذوالحجہ میں سے کسی دن کو کوئی فضیلت نہ ہوتی تو صرف یوم عرفہ ہی ان سارے ایام کی فضیلت کے لئے کافی ہوتا.
3) انہی ایام میں یوم نحر بھی ہے.بعض علماء کے نزدیک یوم نحر(قربانی کا دن) سال کے تمام دنوں سے افضل ہے.کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “أعظم الأيام عند الله يوم النحر و يوم القر” (أبو داؤد و النسائي-و صححه الألباني).
ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:”اسلاف کرام تین عشروں کی بڑی قدر کیا کرتے تھے، رمضان کا عشرہ اور ذوالحجہ کا عشرہ اور محرم کا پہلا عشرہ”ان ایام میں جو اعمال مستحب ہیں اور جن کا تمام مسلمانوں کو خصوصی اہتمام کرنا چاہیئے وہ یہ ہیں.
1) مناسک حج اور عمرہ کی ادائیگی:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، و الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة” (متفق عليه).
2) روزہ رکھنا:حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ما من عبد يصوم يوما في سبيل الله إلا باعد الله بذلك اليوم وجهه عن النار سبعين خريفا” (متفق عليه).
یہ روزہ کی عمومی فضیلت ہے اور جہاں تک عشرہ ذوالحجہ میں روزہ رکھنے کا تعلق ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی سے مروی ہے کہ: “كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة، و يوم عاشوراء، و ثلاثة أيام من كل شهر” (ابو داؤد:2437-و صححه الألباني).
3) اللہ کا ذکر کرنا:ان مبارک ایام میں اللہ تعالی کا ذکر کثرت سے کرنا چاہیئے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “ما من أيام أعظم عند الله و لا أحب إليه العمل الصالح فيهن من هذه الأيام العشر، فأكثروا فيهن من التهليل و التكبير و التحميد” (رواه أحمدو قال الأرناؤط:صحيح) حضرت ابو مالک الاشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “الطهور شطر الإيمان، و الحمد لله تملأ الميزان, و سبحان الله و الحمد لله تملآن (أو تملأ) ما بين السماء و الأرض” (مسلم:223).
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “لقيت إبراهيم ليلة أسري بي، فقال: يا محمد, أقرئ أمتك مني السلام، و أخبرهم أن الجنة طيبة التربة, عذبة الماء, و أنها قيعان, غراسها: سبحان الله و الحمد لله, و لا إله إلا الله, و الله أكبر” (الترمذي:3462-و صححه الألباني).
ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شجرکاری کر رہے تھے کہ ان کے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا.تو آپ نے فرمایا:اے ابوہریرہ!کیا میں تمہیں اس سے بہتر شجرکاری نہ بتاؤں؟ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!تو آپ نے فرمایا: “تم”سبحان الله, و الحمد لله، و لا إله إلا الله, و الله أكبر” کہا کرو،ہر ایک کے بدلے میں تمہارے لئےجنت میں ایک درخت لگایاجائے گا.(ابن ماجہ:3807-و صححہ الالبانی)
4) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کے پتےخشک ہوچکے تھے،آپ نے اپنا عصا اس کو مارا تو اس کےخشک پتےجھڑ گئے. پھر آپ نے ارشاد فرمایا: “إن الحمد لله و سبحان الله, و لا إله إلا الله, و الله أكبر لتساقط من ذنوب العبد كما تساقط ورق هذه الشجرة” (الترمذي:3533-و حسنه الألباني).
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “و كان ابن عمر و أبو هريرة يخرجان إلى السوق في أيام العشر, يكبران و يكبر الناس بتكبيرهما” (البخاري: “العيدين, باب فضل العمل في أيام التشريق”)ان ایام میں عموما جہری تکبیریں کہنا اور آواز زیادہ سے زیادہ بلند کرنا مستحب ہے.خصوصا یوم عرفہ کی نماز فجر سے لیکر13ذوالحجہ کی نماز عصر تک اس دوران ہر فرض نماز کے بعد جہرا تکبیرات پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیئے. ان پانچ ایام میں فرائض کے بعد تکبیرات کا پڑھنا حضرت عمر،علی،عبد اللہ بن عباس،عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سمیت متعدد صحابۂ کرام سے ثابت ہے.تکبیرات کے الفاظ یہ ہیں:
و صلى الله على نبينا محمد و على آله و صحبه أجمعين.
اعداد و تقدیم: عبد الرب محمد اسلام المدنی