قدیم زمانے میں یوم عاشوراء کی اہمیت کیا تھی؟ اس بارے میں اگر چے عام لوگوں میں بہت ساری باتیں مشہور ہیں لیکن ہمیں صحیح روایات سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی اور فرعون اور اسکی لشکر کو غرق آب فرمایا. اسی وجہ سے یہود اس دن کا روزہ رکھتے تھے. پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے پوچھا: تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انھوں نے کہا: یہ ایک عظیم دن ہے، اس میں اللہ تعالی نے حضرت موسی اور ان کی قوم کو نجات دی اور فوعون اور اس کی قوم کو غرق کیا. چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے اسی دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھا. اس لئے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں. اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” فنحن أحق و أولى بموسى منكم” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا.
عن عائشة رضي الله عنها قالت:” كانت قريش تصوم عاشوراء في الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه، فلما هاجر إلى المدينة صامه وأمر بصيامه، فلما فرض شهر رمضان قال: من شاء صامه، ومن شاء لم يصمه”(البخاري:2001، مسلم:1125)
حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ارد گرد بسنے والی بستیوں میں یہ حکم بھیجا کہ بستیوں والے یوم عاشوراء کا روزہ رکھیں. چنانچہ ہم خود بھی روزہ رکھتے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے. اور جب کھانے کے لئے بچے روتے تو ہم انھیں کھلونے دے دیا کرتے تھے تاکہ وہ ان کے ساتھ افطار تک دل بہلاتے رہے.(مسلم:1136)
اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہود یوم عاشوراءکو عید کا دن تصور کرتے تھے اور اہل خیبر (یہود) اس دن اپنی عورتوں کو خصوصی طور پر زیورات وغیرہ پہنا کر خوشی مناتے تھے. چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” فصوموه أنتم” تم اس دن کا روزہ رکھا کرو”( البخاری:2005، )
باقی جہاں تک قصہ نجات موسی علیہ السلام و بنی اسرائیل اور غرق فرعون کا تعلق ہے تو وہ قرآن مجید میں تفصیلا موجود ہے.
اس کے علاوہ اور کوئی بات صحیح سند سے ثابت نہیں ہے.
مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ“ وهو اليوم الذي استوت فيه السفينة على الجودي فصامه نوح شكرا”
لیکن اس روایت کی سند میں ایک راوی عبد الصمد بن حبیب ہے جو کہ ضعیف ہے. اور دوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جو کہ مجہول ہے.
اسی طرح طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ” و في يوم عاشوراء تاب الله عز وجل على آدم عليه السلام، وعلى مدينة يونس، وفيه ولد إبراهيم عليه السلام“
لیکن اسکی سند کے متعلق الحافظ الہیثمی کا کہنا ہے کہ اس میں ایک راوی عبد الغفور ہے جو کہ متروک ہے.
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراء کے روزے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” يكفر السنة الماضية” (المسلم:1162)
اس حدیث کے پیش نظر ہر مسلمان کو یوم عاشوراء کے روزے کا اہتمام کرنا چاہیئے اور اتنی بڑی فضیلت حاصل کرنے کا موقعہ ملے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہیئے.
لیکن افسوس صد افسوس! اس دور میں معیار تبدیل ہو گیا ہے، لوگوں نے اس دن کے حوالے سے کیا کیا بدعات ایجاد کرلی ہیں، سنت بدعت ہوگئی ہے اور بدعت کو سنت تصور کیا جانے لگا ہے! بجائے اس کے کہ اس دن کا روزہ رکھا جاتا اور پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کروانے کا جو سنہری موقعہ ملا تھا اس سے فائدہ اٹھایا جاتا، اس کے بجائے لوگوں نے یہ دن کھانے پینے کا دن تصور کرلیا ہے. لہذا خوب کھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے، خصوصی ڈشیں تیار کی جا تی ہیں، پانی اور دودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا جاتا ہے….نہیں معلوم یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم ہے یا ان کی شہادت کا جشن ہے جو منایا جاتا ہے.
حالانکہ ان رسومات و خرافات کا ثبوت نہ قرآن سے ملتا ہے نہ حدیث سے، نہ آثار صحابہ سے نہ اسلاف امت سے، نہ تابعین اور تبع تابعین سے نہ ائمہ مجتہدین سے.
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سن 61ہجری میں ہوئی. اس کے 19 برس کے بعد یعنی سن 80 ہجری میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پیدا ہوئے، اور 150ہجری میں ان کی وفات ہوئی. لیکن ستر سال کی عمر میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کسی بھی محرم میں نہ تعزیہ بنایا اور نہ اس کا حکم دیا.
البتہ تاریخ سے اس بات کا واضح اور ناقابل تردید ثبوت ہے کہ ان رسومات کو ایجاد کرنے والے خود قاتلان حسین ہیں. اور ان کی ابتداء معزالدولہ شیعی نے 952ہجری میں کی.
چنانچہ واقعات میں آتاہے کہ اس نے اپنے دور حکومت میں لوگوں پر یہ لازم کردیا تھا کہ عاشورہ کے دن غم حسین میں تمام دوکانیں اور بازار بند کردیا جائے.خرید و فروخت قطعا نہ ہو، باورچی نہ تندور سلگائیں اور نہ کھانا پکائیں .
یہی نہیں بلکہ اس کے حکم سے بازار میں ایک قبہ بھی نصب کیا گیا جس کے اوپر ٹاٹ کا کپڑا لگا دیا گیا تھا اور اس نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ عورتیں منہ پر طمانچے مارتی ہوئیں، سینہ پیٹتی ہوئی، مرثیے اور نوحہ پڑھتی ہوئی گلیوں اور بازاروں میں گشت لگائیں اور امام حسین کی شہادت پر ماتم کریں.
معزالدولہ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا عزالدولہ تخت نشین ہوا اور اس نے بھی ان رسومات کو باقی رکھا. پھر یہ بدعت بغداد میں باقاعدہ جاری ہوگئی.
اور ہندوستان میں تعزیہ کی ابتداء تیمور لنگ کے زمانے سے اس کی کوششوں سے880ہجری میں ہوئی.بتایاجاتا ہے کہ تیموری دور میں بادشاہ، وزراء اور عمال حکومت عام طور پر شیعہ تھے اور حکومت کی مصروفیات کی وجہ سے ہرسال کربلا جانا ان کے لئے مشکل تھا اس لئے تیمور لنگ نے کربلا سے حضرت حسین کے روضہ کی نقل منگوائی اور اسے تعزیہ کی شکل میں تیار کردیا تاکہ لوگ اس کے ذریعہ کربلائے معلہ کی زیارت کا ثواب حاصل کریں.
و صلى الله على نبينا محمد و على آله و صحبه أجمعين.